خاکے ۔ ایک نفسیاتی تجزیہ
از: شاہرم شیگانی ، ماہرِنفسیات اور فرحان شاہ، فلاسفر ، اسلامی سکالر
نارویجن سے ترجمہ۔ محمد اکرم شاہ
ایک فرانسیسی استاد جس نے کلاس روم میں نبی اکرم ﷺ کے خاکے تدریسی عمل کے دوران آزادی ِ اظہار کے حوالے سے دیکھاے اسُکو قتل کر دیا گیا۔ اس بھیانک قتل کے بعد اب دوبارہ آ زادیِ اظہار کی اہمیت اور مذہب پر تنقید کی بعث شروع کر دی گئ ہے۔ یہ بعث کچھ مسلمان توہین رسالت کے طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔
ناروے میں بحث چل رہی ہے کہ کس حد تک مقامی اساتذہ کو تدریسی عمل میں خاکے دیکھانے چاہیں یا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آزادیِ اظہار کا اصولی دفاع ، ایک لبرل جمہوریت میں آذادانہ بحث و مباحثہ ، تنقیدی جمہوری ثقافت کی کلید ہے۔ ایک ایسی ثقافت جہاں شہریوں کو بحث ومباحثہ کے ذریعے ریاست کی حکمرانی پر اثر انداز ہونے کے مواقع میسر ہوں نہایت ضروری ہے۔ اس سے قطح نظر کہ آزادانہ رائے کے اظہار سے لوگوں کے مذہب یا مقدس مذہبی تصورات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ مذہبی کتب اور مقدس ہستیوں سے وابسطہ جزبات مجروح ہونا ، کسی کے حق کا مجروح ہونا نہیں ہے۔ تاہم ،ہم سمجھتے ہیں کہ اظہار رائے کی اخلاقی اور اخلاقی جہت کے بارے بات چیت کرنا ایک تیزی سے کثرتیت پسند معاشرے کے لیے بہت مفید ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، کیا حضرت محمد ﷺ کے عجیب وغریب تصوراتی خاکے دیکھانے کا مطمع نظر کسی ردِعمل کو ابھارنا ہے؟ یا آزادئ اظہار کی اہمیت کے بارے میں کھلی اور احترام سے بات چیت کرنے کا ارادہ ہے، اور ساتھ ہی اہلِ ایمان کے لیے مذہب کی افادیت کی تفہیم بھی ہے؟
ہم اس پہلو پر زور دینا چاہتے ہیں کہ مذہبی مشاہدات، دوسرے انسانی مشاہدوں اور تجربات کی طرح نفسیاتی طور پر ایک انوکھی اور نجی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ بہت سارےمذہبی انسانوں کے لیے مذہبی مقدسیات اور مقدس ہستیاں ، مثلا قران اور حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس ، شفاء ،راہنما ئی اور روحانی یکجتی کا ذریعہ ہیں۔ خاکوں کی اشاعت پر مسلمانوں کی طرف سے غیظ وغضب کو سمجھنےکے لیے ضروری ہے کہ یہ پہلو ذہن میں رکھا جائے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت محمد ﷺ محض ایک عام انسان نہیں تھے جو 1400 سو سال پہلے گزر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہر ایک مسلمان کی نفسیات اور اندرونی دْنیا میں ایک حقیقی پیکر کے طور پر زندہ اور روحانی اثر رکھتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام ، ایک نفسیاتی اور روحانی نقطہ نظر سے مشہود پیکر کے مترادف ہیں۔ self-object یعنی ایک مثالی اور نفسیاتی شبیہہ جو ذاتی تصور کو یکجا رکھتی اور زندگی میں مشکل ادوار میں باعثِ راحت بنتی ہے۔ زندگی کے صبرآزما دور میں انسان ذات کی زندگی اس روحانی تصور کی محتاج ہو سکتی ہے۔ اس پس منظر کی تفہیم سے ظاہر ہے، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ، شدید جزبات کو ابھارتی ہے۔ کیونکہ اس اسلوبِ بیان کو اپنے روحانی تصور اور ذات پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
محترم ہستیؐ کے تقدس کے بارے آگاہی ، انتہا ئی نازک موضوع سے متعلق تعمیری گفتگو کے عمل میں مفید ہو سکتی ہے۔
گرما گرم مباحثے میں اس پہلو پر غور ، شاید ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے در کھول دے۔ بےشک ہم
مسلمان ، غیر مسلم یا ا سلام کے ناقدین ہوں۔
اہلِ ایمان یعنی مسلمانوں کو جب رسولِ اکرم ﷺ سے منسوب توہین آمیز خاکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ہی اپنے غیظ وغضب کے سبب کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ، خاکے بنیادی طور پر مسلمانوں کے ذاتی پیکرِحقیقی پرحملہ ہیں ۔ اور وہ خوف محسو س کرتے ہیں کہ ان کی ہستی منہدم ہو رہی ہے۔
اسلام کے نقاد اور مرتد ، آزادی اظہار اور مذہب پر تنقید کے اصولی حق کو ترک کیئے بغیر ہمدردی سے یہ سمجھنے کی کو شش کریں کہ خاکے کیوں کچھ مسلمانوں کے لیے دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔
یہ کہنے کے بعدگزارش، ہم سب کو، اپنی سیاسی، مذہبی اور عقاہد کی وابستگی سے بالا تر ہو کر ہر طرح کے تشدد کی بھرپور اور غیرمشروط مذمت کرنا ہو گی ، جو آذادانہ اظہارِ خیال کرنے والوں پرکیا جاتا ہے۔
توہین آمیزخاکے،حضرت محمد ّ ﷺ کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتے لیکن اہل ایمان کے دلوں کو مجروح کرتے ہیں۔
اگر کوئی خاکوں کا جواب تشدد سے دیتا ہے تو اس سے پیغمبر ؐ کی شان پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن شاید اسلام کے مخالفین کو تنقید کرنے کے لیے مزید بہانے مل جاہیں۔
ناروے میں بحث چل رہی ہے کہ کس حد تک مقامی اساتذہ کو تدریسی عمل میں خاکے دیکھانے چاہیں یا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آزادیِ اظہار کا اصولی دفاع ، ایک لبرل جمہوریت میں آذادانہ بحث و مباحثہ ، تنقیدی جمہوری ثقافت کی کلید ہے۔ ایک ایسی ثقافت جہاں شہریوں کو بحث ومباحثہ کے ذریعے ریاست کی حکمرانی پر اثر انداز ہونے کے مواقع میسر ہوں نہایت ضروری ہے۔ اس سے قطح نظر کہ آزادانہ رائے کے اظہار سے لوگوں کے مذہب یا مقدس مذہبی تصورات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ مذہبی کتب اور مقدس ہستیوں سے وابسطہ جزبات مجروح ہونا ، کسی کے حق کا مجروح ہونا نہیں ہے۔ تاہم ،ہم سمجھتے ہیں کہ اظہار رائے کی اخلاقی اور اخلاقی جہت کے بارے بات چیت کرنا ایک تیزی سے کثرتیت پسند معاشرے کے لیے بہت مفید ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، کیا حضرت محمد ﷺ کے عجیب وغریب تصوراتی خاکے دیکھانے کا مطمع نظر کسی ردِعمل کو ابھارنا ہے؟ یا آزادئ اظہار کی اہمیت کے بارے میں کھلی اور احترام سے بات چیت کرنے کا ارادہ ہے، اور ساتھ ہی اہلِ ایمان کے لیے مذہب کی افادیت کی تفہیم بھی ہے؟
ہم اس پہلو پر زور دینا چاہتے ہیں کہ مذہبی مشاہدات، دوسرے انسانی مشاہدوں اور تجربات کی طرح نفسیاتی طور پر ایک انوکھی اور نجی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ بہت سارےمذہبی انسانوں کے لیے مذہبی مقدسیات اور مقدس ہستیاں ، مثلا قران اور حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس ، شفاء ،راہنما ئی اور روحانی یکجتی کا ذریعہ ہیں۔ خاکوں کی اشاعت پر مسلمانوں کی طرف سے غیظ وغضب کو سمجھنےکے لیے ضروری ہے کہ یہ پہلو ذہن میں رکھا جائے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت محمد ﷺ محض ایک عام انسان نہیں تھے جو 1400 سو سال پہلے گزر چکے ہیں۔ بلکہ وہ ہر ایک مسلمان کی نفسیات اور اندرونی دْنیا میں ایک حقیقی پیکر کے طور پر زندہ اور روحانی اثر رکھتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام ، ایک نفسیاتی اور روحانی نقطہ نظر سے مشہود پیکر کے مترادف ہیں۔ self-object یعنی ایک مثالی اور نفسیاتی شبیہہ جو ذاتی تصور کو یکجا رکھتی اور زندگی میں مشکل ادوار میں باعثِ راحت بنتی ہے۔ زندگی کے صبرآزما دور میں انسان ذات کی زندگی اس روحانی تصور کی محتاج ہو سکتی ہے۔ اس پس منظر کی تفہیم سے ظاہر ہے، توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ، شدید جزبات کو ابھارتی ہے۔ کیونکہ اس اسلوبِ بیان کو اپنے روحانی تصور اور ذات پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
محترم ہستیؐ کے تقدس کے بارے آگاہی ، انتہا ئی نازک موضوع سے متعلق تعمیری گفتگو کے عمل میں مفید ہو سکتی ہے۔
گرما گرم مباحثے میں اس پہلو پر غور ، شاید ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے در کھول دے۔ بےشک ہم
مسلمان ، غیر مسلم یا ا سلام کے ناقدین ہوں۔
اہلِ ایمان یعنی مسلمانوں کو جب رسولِ اکرم ﷺ سے منسوب توہین آمیز خاکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ہی اپنے غیظ وغضب کے سبب کو سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ، خاکے بنیادی طور پر مسلمانوں کے ذاتی پیکرِحقیقی پرحملہ ہیں ۔ اور وہ خوف محسو س کرتے ہیں کہ ان کی ہستی منہدم ہو رہی ہے۔
اسلام کے نقاد اور مرتد ، آزادی اظہار اور مذہب پر تنقید کے اصولی حق کو ترک کیئے بغیر ہمدردی سے یہ سمجھنے کی کو شش کریں کہ خاکے کیوں کچھ مسلمانوں کے لیے دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔
یہ کہنے کے بعدگزارش، ہم سب کو، اپنی سیاسی، مذہبی اور عقاہد کی وابستگی سے بالا تر ہو کر ہر طرح کے تشدد کی بھرپور اور غیرمشروط مذمت کرنا ہو گی ، جو آذادانہ اظہارِ خیال کرنے والوں پرکیا جاتا ہے۔
توہین آمیزخاکے،حضرت محمد ّ ﷺ کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتے لیکن اہل ایمان کے دلوں کو مجروح کرتے ہیں۔
اگر کوئی خاکوں کا جواب تشدد سے دیتا ہے تو اس سے پیغمبر ؐ کی شان پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن شاید اسلام کے مخالفین کو تنقید کرنے کے لیے مزید بہانے مل جاہیں۔